جمعرات، 20 اکتوبر، 2022

عقیدہ ختم نبوت جلد اول و دوم

 

عقیدہ ختم نبوت

  جلد اول و دوم

For Download Click Here


اغراض جلالین

 اغراض جلالین


https://darsenizami.com.pk/2022/10/21/%d8%a7%d8%ba%d8%b1%d8%a7%d8%b6-%d8%ac%d9%84%d8%a7%d9%84%db%8c%d9%86/

حدیث کا تعارف

حدیث کا لغوی واصطلاحی معنی

حدیث کی اصطلاحی تعریف بیان کرنے سے پہلے حدیث کے لغوی معنی بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
زین الدین رازی نے مختار الصحاح میں حدیث کا معنی کچھ یوں بیان کیا کہ
''خبر خواہ قلیل ہو یا کثیر ہو اسے حدیث کہتے ہیں۔
اوراس کی جمع خلاف قیاس احادیث آتی ہے۔
امام فراء کہتے ہیں
احادیث کی واحد اُحدُوثۃ ہے پھراہل لغت نے اسے حدیث کی جمع بنا دیا۔
اورحدوث بھی اسی سے ہے۔کسی چیز کی عدم موجودگی کے بعد اس کا موجود ہونا حدوث کہلاتا ہے ۔
مقاییس اللغۃ
صاحب مقاییس اللغۃ ابو الحسین احمد بن فارس بن زکریا لکھتے ہیں۔کہ
حدث وھو کون الشئی لم یکن یقال حدث امر بعد ان لم یکن
حدث کہتے ہیں کسی چیز کا غیرموجودگی کے بعد موجود ہونا کہا جاتا ہے۔نہ ہونے کے بعد امر وقوع پذیر ہوا۔
نیز چھوٹی عمر والے بچے کو بھی الرجل الحدث کہا جاتا ہے ی۔اورحدیث بھی اسی سے ہے کیونکہ کلام بھی یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے ۔
اوراچھی گفتگو کرنے والے شخص کو بھی رجلٌ حدثٌ کہتے ہیں۔
القاموس المحیط
العلامۃ اللغوی مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی لکھتے ہیں کہ
حدث حدوثا وحداثۃ یہ قدیم کی نقیض اورجب اسے قدم کے مقابلے میں ذکر کیا جائے تو اس کی دال کو ضمہ دیتے ہیں۔
نیز کسی کام یا معاملے کی اولیت یا ابتداء کو حدثان الامرکہتے ہیں۔
اورسال کے ابتداء میں برسنے والی بارشوں کو احداث کہتےہیں۔
اورحدیث بھی اسی سے ہے مطلب خبر ،حدیث،بات والاحدوثۃ اورکسی چیز کے بارے میں خبر دینے کو احدوثۃ کہتے ہیں۔
المنجد
المنجد میں ہے کہ
حَدَثٌ حُدوثا حداثۃٌ واقع ہونا یا نوپید ہونا نیز جب اسے قَدُمَ کے مقابلے میں بولتے ہیں تو عین کلمہ کو ضمہ دیتے ہیں جیسے
اَخَذَنِی ماقَدُمَ وما حَدُثَ
یعنی مجھے نئے اورپرانے غموں نے گھیر لیا۔
اس کے علاوہ دوسری جگہ ضمیر نہیں دیتے۔
نیز تحادثوا (باہم گفتگو کرنا)
الحدث نئی چیز نئی بات
الحادث نوپید چیز،قدیم کی ضد ہے ۔
حدیث بھی اسی سے ہے جمع حداث اورحدثاء مطلب نیا حدیث جمع احادیث،حدثان مطلب خبر کہا جاتا ہے کہ
صاروا احادیث
یعنی وہ لوگ ختم ہوگئے صرف ان کی بات ہی بات باقی رہے گی۔


بدھ، 19 اکتوبر، 2022

کھاناکھانے کے بعد ہاتھوں کو پاؤں کے تلووں سے پونچھنا

 

کھاناکھانے کے بعد ہاتھوں کو پاؤں کے تلووں سے پونچھنا

کھاناکھانے کے بعد ہاتھوں کو پاؤں کے تلووں سے پونچھنے سے متعلق حضر ت عمررضی اللہ عنہ کا ایک اثر ملتا ہے ، لہذا کھاناکھانے کے بعد پاؤں کے تلووں سے ہاتھ پونچھنا درست ہے ۔

کنز العمال میں ہے :

"عن السائب بن يزيد قال: ربما تعشيت عند عمر بن الخطاب فيأكل الخبز واللحم ثم يمسح يده على قدمه ثم يقول: هذا منديل عمر وآل عمر."

(فضائل الفاروق رضي الله عنه12/625ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ :"سائب بن یزید فرماتے ہیں :بسااوقات میں حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس رات کاکھانا کھایا وہ روٹی اور گوشت کھاتے ، پھر اپنا ہاتھ پاؤں پر صاف کرلیتے اور فرماتے یہ عمر اور آل عمر کا رومال ہے ۔"

دیوار

 دیوار 


وہ دونوں بھائی  چالیس سال سے آپس میں  اتفاق سے رہ رہے تھے ۔ ایک بہت بڑا زرعی فارم تھا جس میں ساتھ ساتھ گھر تھے۔ 

دونوں خاندان ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اولادوں میں بھی  بہت پیار اور محبت  تھی۔

ایک دن دونوں بھائیوں میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور ایسا بڑھا کہ نوبت  گالی گلوچ تک جا پہنچی۔

چھوٹے بھائی نے غصے  میں دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھائی کھدوا کر اس میں قریبی نہر  کا پانی چھوڑ دیا تا کہ ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کا راستہ ہی نہ رہے۔

اگلے  روز بڑے بھائی نے ایک ترکھان کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے۔ اس نے میرے اور اپنے گھروں کے درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھائی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا تاکہ نہ میں اس  کی شکل دیکھوں اور نہ ہی اس کا گھر میری نظروں کے سامنے آئے۔ اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔

ترکھان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سے ضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .

موقع دیکھنے کے بعد ترکھان بڑےبھائی  کو ساتھ لے کر قریبی قصبے میں گیا اور چار پانچ کاریگروں کے علاوہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گیا۔

ترکھان نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور یہ کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔

صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ۔

غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں تو ایک بہترین پل بنا ہوا تھا ۔ 

 ترکھان کی اس حرکت پر حیران ہوتا ہوا وہ جونہی اس پل کے قریب  پہنچا تو دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا.

چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑے کبھی کھائی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتے رہے۔ چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میں نے باپ جیسے بڑے بھائی کا دل دکھایا مگر اس کے باوجود وہ مجھ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتا۔

بڑے نے جب اپنے  چھوٹےبھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا بھی دل بھر آیا اور سوچنے لگا کہ غلطی جس کی بھی تھی مجھے یوں جذباتی ہو کر معاملہ بگاڑنا نہیں چاہیے تھا۔

دونوں اپنے اپنے دل میں شرمندہ، آنکھوں میں آنسو لئے  ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے۔

بڑے بھائی  نے ترکھان کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ وہ اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔  بڑا بھائی جلدی سے اس کے پاس پہنچا اورکہا کہ اپنی اجرت تو لیتے جاؤ۔

 ترکھان نے کہا! اس پل کو بنانے کی اجرت آپ سے نہیں لوں گا بلکہ اس سے لوں گا جس کا وعدہ ہے

*"جو شخص اللّٰہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کہ لئے لوگوں میں صلح کروائے گا، اللّٰہ جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازے گا۔"

یہ کہہ کر ترکھان نے اللّٰہ حافظ کہا اور چل دیا۔

 اس تحریر کو پڑھنے والے تمام محترم قا رئین سے  بے حد ادب سے گزارش ہے کہ  کوشش کریں کہ اس ترکھان کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں نہ کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کا سبب بنیں۔

منقول

منگل، 18 اکتوبر، 2022

غسل کے فرائض

غسل کے فرائض

غسل کے تین (3) فرائض ہیں۔

1۔کلی کرنا

تفصیل:کلی اس طرح کریں کہ منہ کے ہر ہر حصہ پر پانی بہہ جائے۔دانتوں میں اگر کوئی چیز پھنسی ہوئی ہے تو اس کو نکالنا ضروری ہے۔

2۔ناک میں پانی چڑھانا۔

تفصیل: ناک میں پانی اس طرح چڑھائیں کہ نرم ہڈی تک پانی چلا جائیں۔اور ناک کو صاف بھی کریں۔

3۔ پورے جسم پر پانی بہانا

تفصیل:پورے جسم پر پانی اس طرح بہائیں کہ کوئی حصہ بھی خشک نہ رہے۔

احتیاطیں۔

1۔لمبے بالوں والے بالوں کو اچھی طرح کھول کر دھوئیں۔

2۔موٹے جسم والے حضرات پیٹ کی بلٹیں اٹھاکر دھوئیں۔

3۔بغلوں میں۔ٹانگوں کے درمیان (جبکہ بیٹھ کر نہا رہے ہوں)پانی اچھی طرح بہائیں۔


درس نظامی(عالم کورس)کامختصر تعارف

درس نظامی(عالم کورس)کامختصر تعارف

درس نظامی ملا نظام الدین محمد سہالوی فرنگی محل سے منسوب ایک طریقۂ تدریس و نصاب، نصاب تعلیم و نظام تدریس ہے جو انہوں نے مشرق کی دینی درسگاہوں کے لیے تیار کیا تھا۔علومِ اسلامیہ پر مشتمل آٹھ سالہ مرو جہ کورس جو تقریبًا تمام مکاتب فکر میں رائج ہے۔ اسے عالم کورس بھی کہا جاتا ہے۔درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین سہالوی لکھنوی تھے، جن کا مرکز فرنگی محل لکھنوٴ تھا۔ درس نظامی کے نام سے جو نصاب آج تمام مدارس عربیہ میں رائج ہے وہ ان ہی کی یاد گار ہے۔ 

نصاب درس نظامی

صرف

نحو

منطق

فلسفہ

ریاضی

بلاغت

فقہ

اصول فقہ

کلام

تفسیر

حدیث

موجودہ درس نظامی

موجودہ دور میں اس میں چند تبدیلیوں کے ساتھ درس نظا می (عالم کورس) کا مکمل نصاب جس کے بورڈکنز المدارس (دعوت اسلامی) تنظیم المدارس اہلسنت پاکستانوغیرہاکے نام پر پاکستان بورڈسے منسلک ہے، جس کی سند ہائیر ایجوکیشن کمیشن (Higher Education Commission) نے ایم اے عربی و اسلامیات کے مساوی قراردی ہے یہ نصاب حکومت پاکستان سے منظور شدہ ہے جس میں قرآن و حدیث ،ترجمہ و تفسیر،فقہ،اصول فقہ،عربی زبان و ادب اور گرامر اور دیگر تحریکی و دینی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔

 

نصاب کی معلومات کے لیے  اس لنک پر کلک کیجئے

www.darsenizami.com.pk

بوڑھے آدمی کا مقدمہ

*🟢 کویت میں ایک بوڑھا آدمی عدالت میں داخل ہوا تاکہ اپنی شکایت (مقدمہ) قاضی کے سامنے پیش کرے-*

قاضی نے پوچھا آپ کامقدمہ کس کے خلاف ہے؟
اس نےکہا اپنے بیٹے کے خلاف۔۔۔ قاضی حیران ہوا اور پوچھا کیا شکایت ہے؟
بوڑھے نے کہا:
"میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں۔۔۔"
*قاضی نے کہا یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے*
بوڑھے نے کہا:
قاضی صاحب۔۔۔! اس کے باوجود کہ میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج نہیں ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں۔۔۔
قاضی حیرت میں پڑ گیا اور اس سے اس کے بیٹے کا نام اور پتہ لیکر اسے عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔ بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی نے اس سے پوچھا کیا یہ آپ کے والد ہیں؟
بیٹے نے کہا جی ہاں یہ میرے والد ہیں۔۔۔
قاضی نے کہا انہوں نے آپ  کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ آپ ان کو ماہانہ خرچہ ادا کرتے رہیں چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔۔۔
بیٹے نے حیرت سے کہا وہ مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جبکہ وہ خود بہت مالدار ہیں اور انہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔۔۔
قاضی نے کہا یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے اور وہ اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔۔۔
بوڑھے نے کہا:
قاضی صاحب۔۔۔! اگر آپ اس کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کاحکم دیں تو میں خوش ہو جاؤں گا بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بلا تاخیر اور بلا واسطہ دیا کرے۔ قاضی نے کہا بالکل ایسا ہی ہوگا یہ آپ کا حق ہے۔۔۔
*پھر قاضی نےحکم جاری کیا کہ "فلان ابن فلان اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بلا تاخیر اپنے ہاتھ سے بلا واسطہ دیا کرے گا"*
کمرۂِ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دائر کیوں کیا تھا جبکہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا؟۔۔۔
بوڑھے نے روتے ہوئے کہا:
قاضی محترم۔۔۔! میں اپنے اس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس رہا ہوں اور اس کو اس کے کاموں نے اتنا مصروف کیا ہے کہ میں ایک طویل زمانے سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ہوں جبکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ شدید محبت رکھتا ہوں اور ہر وقت میرے دل میں اس کاخیال رہتا ہے یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا حتیٰ کہ ٹیلیفون پر بھی۔۔۔
اس مقصد کے لئے کہ میں اسے دیکھ سکوں چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی، میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔۔۔
یہ سن کر قاضی بے ساختہ رونے لگا اور ساتھ دوسرے بھی۔۔۔ اور بوڑھے باپ سے کہا:
اللہ کی قسم اگر آپ پہلے مجھے اس حقیقت سے اگاہ کرتے تو میں اس کو جیل بھیجتا اور کوڑے لگواتا۔
بوڑھے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا:

سیدی قاضی۔۔۔! آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا۔۔۔

*کاش بیٹے جان لیتے کہ ان کے والدین کے دلوں میں ان کی کتنی محبت ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے*

(ایک عربی پوسٹ کا ترجمہ)

توقير الصحابة لسيّدنا رسول الله ﷺ


ذات مرّة أتى عُروَة بن مسعود رضي الله تعالى عن إلى النبيِّ ﷺ وذلك قبل أنْ يُسلِم، فجَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَيْنَيْهِ -وهم يعزّرونه ويحترمونه ويوقّرونه،- فَرَجَعَ عُرْوَةُ بن مسعود إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَيْ قَوْمِ! وَاللهِ! لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى المُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ، وَكِسْرَى، وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللهِ! إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا، وَاللهِ! إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ[1].
وعن سيّدنا عونِ بن أَبِي جُحَيفَةَ رضي الله تعالى عنه عن أبيه قال: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوءَ النَّبِيِّ ﷺ وَالنَّاسُ يَبْتَدِرُونَ الوَضُوءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا، أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ[2].
أيّها الأحبّة! إنّ محبّة النبي ﷺ لدى أصحابه شديدة وقويّة لا يوازيها حبّ أحدٍ بعدهم، فلقد أحبّ الصحابة رضي الله عنهم الرسولَ ﷺ حُبًّا فاق كلّ حبّ ولا يوجد له مثال لهم في حبّهم له ﷺ في هذا العالم.
وقام هؤلاء الصحابة الإجلاء رضوان الله تعالى عليهم من خلال شخصيتهم وسلوكهم وأدبهم إلى يوم القيامة بتعليم المسلمين، بأنّه كيف ينبغي لكلّ شخصٍ من أمّته تعظيم وتوقير نبيّه ﷺ؟
واعلموا أيّها الإخوة! أنّه منذ وجود الحبيب ﷺ في هذا الوجود حتّى اليوم كان جميع الصحابة والتابعين وتابعي التابعين وسائر العلماء والمفتين والسلف الصالح وعامّة المسلمين بلزوم هذا التعزير والتوقير لرسول ﷺ بكلّ وجه أمكن، وسيستمرّون عليه إلى يوم القيامة، ولِمَ لا وهو واجب وشعبة عظيمة مِن شعب الإيمان، وقد قال الله في محكم تنزيله: ﴿إِنَّآ أَرۡسَلۡنَٰكَ شَٰهِدٗا وَمُبَشِّرٗا وَنَذِيرٗا ٨ لِّتُؤۡمِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُۚ وَتُسَبِّحُوهُ بُكۡرَةٗ وَأَصِيلًا ٩﴾ [الفتح: ۸-۹].
قال العلّامة القاضي عياض المالكي رحمه الله تعالى: أوجب الله تعالى تعزير -رسوله ﷺ- وتَوقِيرَهُ وَألزَمَ إكرامَهُ وتعظيمه۔

وضو کے فرائض

 وضوکے چار فرض ہیں

1.چہرہ دھونا

2.کہنیوں سمیت بازو دھونا

3.چوتھائی سر کا مسح کرنا

4.ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا


اس کے علاوہ ہماری ویب سائٹ وزٹ کریں

www.darsenizami.com.pk